ہر طرف ڈوبتے سورج کا سماں دیکھئے گا
اک ذرا منظرِ غرقابئ جاں دیکھئے گا
سیرِ غرناطہ و بغداد سے فرصت پا کر
اس خرابے میں بھی خوابوں کے نشاں دیکھئے گا
یہ در و بام، یہ چہرے، یہ قبائیں، یہ چراغ
راہ میں اور بھی قاتل ہیں اجازت لیجے
جیتے رہیے گا تو پھر کُوئے بُتاں دیکھئے گا
شاخ پر جھومتے رہنے کا تماشا کیا ہے
کبھی صرصر میں ہمیں رقص کناں دیکھئے گا
یہی دنیا ہے تو اس تیغِ مکافات کی دھار
ایک دن گردنِ خنجر پہ رواں دیکھئے گا
دل طرفدارِ حرم، جسم گرفتارِ فرنگ
ہم نے کیا وضع نکالی ہے میاں دیکھئے گا
عرفان صدیقی
No comments:
Post a Comment