بے سر و ساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا
اس سے پہلے شہر کے لٹنے کا آوازہ نہ تھا
ظرفِ دل دیکھا تو آنکھیں کرب سے پتھرا گئیں
خون رونے کی تمنا کا یہ خمیازہ نہ تھا
آ، مِرے پہلو میں آ، اے رونقِ بزمِ خیال
ہم نے دیکھا ہے خزاں میں بھی تِری آمد کے بعد
کون سا گل تھا کہ گلشن میں تر و تازہ نہ تھا
ہم قصیدہ خواں نہیں اس حسن کے، لیکن فرازؔ
اتنا کہتے ہیں، رہینِ سرمہ و غازہ نہ تھا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment