Monday 15 June 2015

تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو

تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
اب ہو چلا یقیں کہ برے ہم ہیں‌ دوستو
کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے کیا کریں
آنکھیں‌ تو دشمنوں‌ کی بھی پرنم ہیں دوستو
اپنے سوا ہمارے نہ ہونے کا غم کسے
اپنی تلاش میں تو ہم ہی ہم ہیں دوستو
کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا
کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو
اس شہرِ آرزو سے بھی باہر نکل چلو
اب دل کی رونقیں بھی کوئی دم ہیں‌ دوستو
سب کچھ سہی فرازؔ پر اتنا ضرور ہے
دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں‌ دوستو

احمد فراز

No comments:

Post a Comment