تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
اب ہو چلا یقیں کہ برے ہم ہیں دوستو
کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے کیا کریں
آنکھیں تو دشمنوں کی بھی پرنم ہیں دوستو
اپنے سوا ہمارے نہ ہونے کا غم کسے
کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا
کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو
اس شہرِ آرزو سے بھی باہر نکل چلو
اب دل کی رونقیں بھی کوئی دم ہیں دوستو
سب کچھ سہی فرازؔ پر اتنا ضرور ہے
دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں دوستو
احمد فراز
No comments:
Post a Comment