Friday 12 June 2015

سوچتے اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں

سوچتے اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں
اپنے گم گَشتہ کناروں کے لیے بہتا ہوں میں
جل گیا سارا بدن ان موسموں کی آگ میں
ایک موسم روح کا ہے جس میں اب زندہ ہوں میں
میرے ہونٹوں کا تبسم دے گیا دھوکا تجھے
تُو نے مجھ کو باغ جانا، دیکھ لےصحرا ہوں میں
دیکھئے، میرے پزیرائی کو اب آتا ہے کون
لمحہ بھر کو وقت کی دہلیز پر آیا ہوں میں

اطہر نفیس

No comments:

Post a Comment