Friday, 19 June 2015

سحاب تھا کہ ستارہ گریز پا ہی لگا

سحاب تھا کہ ستارہ، گریز پا ہی لگا
وہ اپنی ذات کے ہر رنگ میں ہوا ہی لگا
میں ایسے شخص کی معصومیت پہ کیا لکھوں
جو مجھ کو اپنی خطاؤں میں بھی، بھلا ہی لگا
زباں سے چپ ہے، مگر آنکھ بات کرتی ہے
نظر اٹھائی ہے جب بھی، تو بولتا ہی لگا
جو خواب دینے پہ قادر تھا میری نظروں میں
عذاب دیتے ہوئے بھی مجھے خدا ہی لگا
نہ میرے لطف پہ حیراں، نہ اپنی الجھن پر
مجھے یہ شخص تو ہر شخص سے جدا ہی لگا

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment