Thursday, 18 June 2015

ترے بعد جانے یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے

تیرے بعد جانے یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے
گھِرے ہم بھنور میں کچھ اس طرح کھلے بادباں کو ترس گئے
مِرے شہر کے جو چراغ تھے انہیں آندھیوں نے بُجھا دیا
چلی ایسی اب کے ہوائے دل کہ مکِیں مکاں کو ترس گئے
یہ عجیب خوف و ہراس ہے کوئی دُور ہے، کوئی پاس ہے
وہ جو آشیاں کے تھے پاسباں وہی آشیاں کو ترس گئے
جنہیں پیار پر رہی دسترس وہی دُور ہم سے ہیں اس برس
اے بہار! تیری بہار میں درِ دوستاں کو ترس گئے
تھے جو کل تلک مِرے آشنا سبھی یار نکلے وہ بے وفا
سدا خوش رہیں مِرے خوشنوا بھلے ہم زباں کو ترس گئے
وہ جو جان سے بھی عزیز تھے وہی لوگ میرے رقیب تھے
بھلا کیسے اپنے نصیب تھے کہ کہاں کہاں کو ترس گئے
نہ وہ راگ ہے نہ وہ راگنی، نہ وہ چاند ہے نہ وہ چاندنی
مِری خواہشوں کے جو تیر تھے وہ کڑی کماں کو ترس گئے
نہ ہی تذکرہ یہاں ہِیر کا، نہ ہی ذکر مصرعۂ میر کا
حسنؔ ایسے کتنے ہی بے نوا شبِ داستاں کو ترس گئے

حسن رضوی

No comments:

Post a Comment