Friday 12 June 2015

اشک در اشک دہائی کا ثمر دیتے ہیں

اشک در اشک، دہائی کا ثمر دیتے ہیں
ان کے آثار، جدائی کی خبر دیتے ہیں
غالباً یہ مِرے چپ رہنے کا خمیازہ ہے
تجھ کو آواز مِرے شام و سحر دیتے ہیں
مسکرا کر مجھے دے دیتے ہیں وہ اِذنِ فرار
پر مِری ذات کو اندر سے جکڑ دیتے ہیں
چند احباب، مسیحائی کا وعدہ کر کے
زخم کو کھود کے، بارود سا بھر دیتے ہیں
ایک بے نام اداسی نے مجھے گھیر لیا
خشک پلکوں سے وہ آج اِذنِ سفر دیتے ہیں
لفظ مردہ ہیں، لغت کوئی اٹھا کر دیکھو
صرف جذبات ہی لفظوں کو اثر دیتے ہیں
وادیٔ حسن کے نقاش، شریر اتنے ہیں
چشمِ گمراہ کو بھی راہگزر دیتے ہیں
آپ کیا دیتے ہیں اس حسن کی رعنائی کو
جس کے دیدار کو ہم خونِ جگر دیتے ہیں
ساقئ مستِ الست، اپنی پہ آ جائیں تو
اِک نظر دیکھ کے میخانے کو بھر دیتے ہیں
چشمِ مرشد ہی نہیں چشمۂ فیضانِ بشر
قیسؔ کچھ دستِ حنائی بھی نظر دیتے ہیں

شہزاد قیس​

No comments:

Post a Comment