تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں
میں دشمنوں میں ہوں کہ تیرے دوستوں میں ہوں
مجھے سے گریز پا ہے تو ہر راستہ بدل
میں سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں
اے یارِ خوش دیار! تجھے کیا خبر کہ میں
تُو لُوٹ کر بھی اہل تمنا کو خوش نہیں
میں لُٹ کے بھی وفا کے انہیں قافلوں میں ہوں
بدلا نہ میرے بعد بھی موضوعِ گفتگو
میں جا چکا ہوں پھر بھی تِری محفلوں میں ہوں
مجھ سے بچھڑ کر تُو بھی روئے گا عمر بھر
یہ سوچ لے کہ میں بھی تیری خواہشوں میں ہوں
خود بھی مثالِ لالۂ صحرا، لہو، لہو
اور خود فرازؔ اپنے تماشائیوں میں ہوں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment