Sunday 14 June 2015

ملے غم سے اپنے فرصت تو سناؤں وہ فسانہ

ملے غم سے اپنے فرصت تو سناؤں وہ فسانہ
کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے عشرتِ شبانہ
یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرت
یہی زندگی حقیقت، یہی زندگی فسانہ
کبھی درد کی تمنا، کبھی کوششِ مداوا
کبھی بجلیوں کی خواہش، کبھی فکرِ آشیانہ
مِرے قہقہوں کے زد پر کبھی گردشیں جہاں کی
مِرے آنسوؤں کی رَو میں کبھی تلخئ زمانہ
مِری رفعتوں سے لرزاں کبھی مہر و ماہ و انجم
مِری پستیوں سے خائف کبھی اوجِ خُسروانہ
ابھی میں ہوں تجھ سے نالاں کبھی مجھ سے تُو پریشاں
کبھی میں تیرا ہدف ہوں، کبھی تُو میرا نشانہ
جسے پا سکا نہ زاہد، جسے چھو سکا نہ صوفی
وہی تیر چھیڑتا ہے مِرا سوزِ شاعرانہ

معین احسن جذبی

No comments:

Post a Comment