تجھ پر بھی فسوں دہر کا چل جائے گا آخر
دُنیا کی طرح تو بھی بدل جائے گا آخر
پھیلی ہے ہر اِک سمت حوادث کی کڑی دھوپ
پتھر ہی سہی، وہ بھی پِگھل جائے گا آخر
اَے میرے بدن! روح کی دولت پہ نہ اِترا
وہ صبح کا تارہ ہے تو پھر ماند بھی ہو گا
چڑھتا ہُوا سُورج ہے، تو ڈھل جائے گا آخر
دل تجھ سے بچھڑ کر بھی کہاں جائے گا اے دوست
یادوں کے کھلونوں سے بہل جائے گا آخر
آوارہ و بدنام ہے محسنؔ! تو ہمیں کیا
خود ٹھوکریں کھا کھا کے سنبھل جائے گا آخر
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment