تر ہوئے خوں میں کبھی خاک پہن کر آئے
ہم ہمیشہ نئی پوشاک پہن کر آئے
اِک عجب رنگ سے نکلا وہ سرِ راہ کہ لوگ
جسم پر دیدۂ بے باک پہن کر آئے
ہم نے صدیوں کی ہتھیلی پہ رکھی ہیں آنکھیں
سانحہ کون سا گزرا ہے صبا سے پوچھو
چند جھونکے خس و خاشاک پہن کر آئے
اشکِ شہرِ شبِ غم! اپنی دعا ہے کہ کبھی
مثلِ خورشید تُو افلاک پہن کر آئے
زخم کو ضد تھی مسیحائی سے اب کے ورنہ
حرفِ مرہم کئی چالاک پہن کر آئے
آج ملنا تھا اسے زخم چھپا کر محسنؔ
ہم مگر جامۂ صد چاک پہن کر آئے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment