Monday 1 June 2015

تر ہوئے خوں میں کبھی خاک پہن کر آئے

تر ہوئے خوں میں کبھی خاک پہن کر آئے 
ہم ہمیشہ نئی پوشاک پہن کر آئے
اِک عجب رنگ سے نکلا وہ سرِ راہ کہ لوگ
جسم پر دیدۂ بے باک پہن کر آئے
ہم نے صدیوں کی ہتھیلی پہ رکھی ہیں آنکھیں
کوئی لمحہ تِرا اِدراک پہن کر آئے 
سانحہ کون سا گزرا ہے صبا سے پوچھو 
چند جھونکے خس و خاشاک پہن کر آئے
اشکِ شہرِ شبِ غم! اپنی دعا ہے کہ کبھی 
مثلِ خورشید تُو افلاک پہن کر آئے
زخم کو ضد تھی مسیحائی سے اب کے ورنہ 
حرفِ مرہم کئی چالاک پہن کر آئے
آج ملنا تھا اسے زخم چھپا کر محسنؔ
ہم مگر جامۂ صد چاک پہن کر آئے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment