ختم ہو جنگ خرابے پہ حکومت کی جائے
آخری معرکۂ صبر ہے، عجلت کی جائے
ہم نہ زنجیر کے قابل ہیں نہ جاگیر کے اہل
ہم سے انکار کیا جائے، نہ بیعت کی جائے
مملکت اور کوئی بعد میں ارزانی ہو
یا کیا جائے مجھے خوش نظری سے آزاد
یا اِسی دشت میں پیدا کوئی صورت کی جائے
ہم عبث دیکھتے ہیں غرفۂ خالی کی طرف
یہ بھی کیا کوئی تماشا ہے کہ حیرت کی جائے
گھر بھی رہیے تو چلے آتے ہیں مِلنے کو غزال
کاہے کو بادیہ پیمائی کی زحمت کی جائے
اپنی تحریر تو جو کچھ ہے سو آیئنہ ہے
رمزِ تحریر مگر کیسے حکایت کی جائے
عرفان صدیقی
No comments:
Post a Comment