Tuesday 9 June 2015

تو اس کا دھیان مرے مصرع حسیں پہ نہیں

تو اس کا دھیان مِرے مصرعِ حسیں پہ نہیں
شکن ابھی کوئی ابروئے نکتہ چیں پہ نہیں
مکان چھوڑ گئے لوگ، ڈھونڈتے ہو کِسے
کوئی ستارہ اب اس بامِ انجمن پہ نہیں
بہت مِلی تھیں دعائیں فلک نشینی کی
ہمارا کچھ بھی بدن کے سوا زمیں پہ نہیں
اب ایسے شخص کو قاتل کہیں تو کیسے کہیں
لہو کا کوئی نشاں اس کی آستیں پہ نہیں
اداس خشک لبوں پر لرز رہا ہو گا
وہ ایک بوسہ جو اب تک مِری جبیں پہ نہیں
میں جل رہا ہوں حقیقت کی دھوپ میں کب سے
کسی گماں کا بھی سایہ مِرے یقیں پہ نہیں

عرفان صدیقی

No comments:

Post a Comment