سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر
زندە ہوں ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر
مالی نے آج کتنی دعائیں وصول کیں
کچھ پھول اِک فقیر کی جھولی میں ڈال کر
کل یومِ ہجر، زرد زمانوں کا یوم ہے
اے گرد باد! لوٹ کے آنا ہے پھر مجھے
رکھنا مِرے سفر کی اذیت سنبھال کر
محراب میں دِیے کی طرح زندگی گزار
منہ زور آندھیوں میں نہ خود کو نڈھال کر
شاید کسی نے بُخلِ زمیں پر کیا ہے طنز
گہرے سمندروں سے جزیرے نکال کر
یہ نقدِ جاں کہ اس کا لٹانا تو سہل ہے
گر بن پڑے تو اس سے بھی مشکل سوال کر
محسنؔ! برہنہ سر چلی آئی ہے شامِ غم
غربت نہ دیکھ، اس پہ ستاروں کی شال کر
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment