ہے یہی اصلِ خودی، خود سے گزر جا مرے دوست
زندہ رہنا ہے تو پھر عشق میں مر جا مرے دوست
جس طرف یار کے قدموں کے نشاں جاتے ہیں
ترک کن راہِ دِگر، صرف اُدھر جا مرے دوست
ہاں مرے پاس کوئی فقر، کوئی رمز نہیں
تم سمجھتے ہو مجھے اس کی کوئی فکر نہیں
میں تو خود دل سے یہ کہتا ہوں سُدھر جا مرے دوست
وہ تجھے اپنے غضب سے جو ڈراتا ہے تو پھر
لاج رکھ اپنے خداوند کی، ڈر جا مرے دوست
از پئے دید و شنید اہلِ صفا کی جانب
تجھے جانا ہے تو با دیدۂ تر جا مرے دوست
اب تُو آلودۂ دنیا ہے سو اس تخت کو چھوڑ
تُو اسی وقت مرے دل سے اتر جا مرے دوست
لوگ اعزاز سمجھتے ہیں مجھے رَد کرنا
کس شش و پنج میں ہے، تُو بھی مُکر جا مرے دوست
سوچنے اور سمجھنے کا کوئی کھیل نہیں
یار کہہ دے کہ بکھر جا! تو بکھر جا مرے دوست
"یہ جو تُو روز ہی کہتا ہے "چلا جاؤں گا
میں تو کہتا ہوں کہ یہ کام بھی کر جا مرے دوست
علی زریون
No comments:
Post a Comment