Friday, 5 June 2015

کہا تھا کس نے عہد وفا کرو اس سے

کہا تھا کس نے عہدِ وفا کرو اس سے
جو یوں کیا ہے تو پھر کیوں گِلہ کرو اس سے
یہ اہلِ بزم، تنک حوصلہ سہی، پھر بھی
ذرا فسانۂ دل ابتداء کرو اس سے
یہ کیا کہ تم ہی غمِ ہجر کے فسانے کہو
کبھی تو اس کے بہانے سنا کرو اس سے
نصیب پھر کوئی تقریبِ کرب ہو کہ نہ ہو
جو دل میں‌ ہوں وہی باتیں کیا کرو اس سے
فرازؔ! ترکِ تعلق تو خیر کیا ہو گا
یہی بہت ہے کہ کم کم مِلا کرو اس سے​

احمد فراز​

No comments:

Post a Comment