بے نیازِ غمِ پیمانِ وفا ہو جانا
تم بھی اوروں کی طرح مجھ سے جدا ہو جانا
میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی بوندیں
تم بھی پا بستۂ زنجیرِ حِنا ہو جانا
گرچہ اب قرب کا امکاں ہے بہت کم پھر بھی
صرف منزل کی طلب ہو تو کہاں ممکن ہے
دوسروں کے لیے خود آبلہ پا ہو جانا
خلق کی سنگ زنی میری خطاؤں کا صِلہ
تم تو معصوم ہو تم دُور ذرا ہو جانا
اب مِرے واسطے تریاق ہے الحاد کا زہر
تم کسی اور پجاری کے خدا ہو جانا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment