Monday 1 June 2015

کب سے تم نے اپنایا اس طرح کا ہو جانا

کب سے تم نے اپنایا اس طرح کا ہو جانا
شب کو جاگتے رہنا، دن میں تھک کے سو جانا
شہر میں تو مجھ جیسی بے شمار آنکھیں ہیں 
تم بھی خیر سے جاؤ، تم نہ ان میں کھو جانا
عدل کے کٹہرے میں جرم بول پڑتا ہے
داغ داغ دامن سے کچھ لہو تو دھو جانا
تن کی شاخ شاخ اب کے چُور ہے گلابوں سے
تم بھی اپنے حصے کے پھول کچھ  پِرو جانا
میرے بعد کا رَستہ تم سے کٹ نہ پائے گا
جو بھی اجنبی دیکھو، اب اسی کے ہو جانا
جب کبھی پہاڑوں میں چاند ڈوبتا دیکھوں
مجھ کو یاد آتا ہے، تیرے شہر کو جانا
کچھ نہ کچھ تو وِرثے میں چھوڑنا بھی ہے محسنؔ
ریت ریت کھیتوں میں، کچھ نہ کچھ تو بو جانا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment