کب سے تم نے اپنایا اس طرح کا ہو جانا
شب کو جاگتے رہنا، دن میں تھک کے سو جانا
شہر میں تو مجھ جیسی بے شمار آنکھیں ہیں
تم بھی خیر سے جاؤ، تم نہ ان میں کھو جانا
عدل کے کٹہرے میں جرم بول پڑتا ہے
تن کی شاخ شاخ اب کے چُور ہے گلابوں سے
تم بھی اپنے حصے کے پھول کچھ پِرو جانا
میرے بعد کا رَستہ تم سے کٹ نہ پائے گا
جو بھی اجنبی دیکھو، اب اسی کے ہو جانا
جب کبھی پہاڑوں میں چاند ڈوبتا دیکھوں
مجھ کو یاد آتا ہے، تیرے شہر کو جانا
کچھ نہ کچھ تو وِرثے میں چھوڑنا بھی ہے محسنؔ
ریت ریت کھیتوں میں، کچھ نہ کچھ تو بو جانا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment