Thursday 4 June 2015

لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں

لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں
حسرتیں ہی حسرتیں ہیں، مدعا کوئی نہیں
حرفِ غم ناپید ہے، آنکھوں میں نم ناپید ہے
درد کا سیلِ رواں ہے، راستا کوئی نہیں
اپنے من کا عکس ہے، اپنی صدا کی بازگشت
دوست، دشمن، آشنا، ناآشنا کوئی نہیں
سب کے سب اپنے گریبانوں میں ہیں ڈُوبے ہوئے
گل سے گل تک رشتۂ موجِ صبا کوئی نہیں
حالِ زار ایسا کہ دیکھے سے ترس آنے لگے
سنگدل اتنے کہ ہونٹوں پر دعا کوئی نہیں
کیا کوئی راکب نہیں ہم میں سمندِ وقت کا
نقشِ پا سب ہیں تو کیا زنجیرِ پا کوئی نہیں
میں تو آئینہ ہوں سب کی شکل کا آئینہ دار
بزم میں لیکن مجھے پہچانتا کوئی نہیں
دل کے ڈوبے سے مٹی دستِ شناور کی سکت
موج کی طغیانیوں سے ڈوبتا کوئی نہیں
آنکھ میچو گے تو کانوں سے گزر آئے گا حسن
سیل کو دیوار و در سے واسطہ کوئی نہیں
عرش کی چاہت ہو یا پاتال کا شوقِ سفر
ابتداء کی دیر ہے پھر انتہا کوئی نہیں
کارواں خورشیدؔ جانے کس گپھا میں کھو گیا
روشنی کیسی کہ صحرا میں صدا کوئی نہیں

خورشید رضوی

No comments:

Post a Comment