Thursday, 8 October 2015

زندہ ہیں مگر کتنے عذابوں سے جڑے ہیں

زندہ ہیں مگر کتنے عذابوں سے جُڑے ہیں
ہم لوگ حقیقت میں سرابوں سے جُڑے ہیں
شاید وہ حقیقت میں فسانوں کی طرح تھے
تاریخ میں جو لوگ کتابوں سے جُڑے ہیں
تحقیق میں نکلو گے تو پھر راز کھُلیں گے
ہم لوگ بظاہر تو نصابوں سے جُڑے ہیں
اک تُو کہ مِری سوچ کا محور ہے تِرے ساتھ
کتنے ہی سوالات جوابوں سے جُڑے ہیں
ٹُوٹیں گے تِرے خواب کے منظر تو کھُلے گا
کس درجہ حقائق تِرے خوابوں سے جُڑے ہیں
جانے کیوں وہم کی یہ ہوا میں بھی ہیں محفوظ
یہ گھر جو تِری سوچ کے دھاگوں سے جُڑے ہیں
چونک اُٹھیں گے اِک دُھوپ کے صحرا میں عقیلؔ اب
وہ لوگ جو غفلت کی شرابوں سے جُڑے ہیں

عقیل شاہ

No comments:

Post a Comment