Thursday, 8 October 2015

کیسے بدل رہے ہو بتاتا نہیں ہے کیا

کیسے بدل رہے ہو بتاتا نہیں ہے کیا
آئینہ کوئی تم کو دِکھاتا نہیں ہے کیا
خلقِ خدا کا خوف تو دل میں نہیں رہا
تم کو خدا کا خوف بھی آتا نہیں ہے کیا
تاریک لگ رہی ہے ہے شبِ ماہتاب بھی
کوئی یہاں چراغ جلاتا نہیں ہے کیا
باشندگانِ شہر سبھی محوِ خواب ہیں
ان کو طلسمِ شب بھی جگاتا نہیں ہے کیا

عبید صدیقی

No comments:

Post a Comment