کیسے بدل رہے ہو بتاتا نہیں ہے کیا
آئینہ کوئی تم کو دِکھاتا نہیں ہے کیا
خلقِ خدا کا خوف تو دل میں نہیں رہا
تم کو خدا کا خوف بھی آتا نہیں ہے کیا
تاریک لگ رہی ہے ہے شبِ ماہتاب بھی
کوئی یہاں چراغ جلاتا نہیں ہے کیا
باشندگانِ شہر سبھی محوِ خواب ہیں
ان کو طلسمِ شب بھی جگاتا نہیں ہے کیا
آئینہ کوئی تم کو دِکھاتا نہیں ہے کیا
خلقِ خدا کا خوف تو دل میں نہیں رہا
تم کو خدا کا خوف بھی آتا نہیں ہے کیا
تاریک لگ رہی ہے ہے شبِ ماہتاب بھی
کوئی یہاں چراغ جلاتا نہیں ہے کیا
باشندگانِ شہر سبھی محوِ خواب ہیں
ان کو طلسمِ شب بھی جگاتا نہیں ہے کیا
عبید صدیقی
No comments:
Post a Comment