Sunday, 28 January 2018
بکھرتا جسم میری جاں کتاب کیا ہو گا
دل یوں دھڑکا کہ پریشان ہوا ہو جیسے
کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی سجا دی
ان کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی
Saturday, 27 January 2018
گزشتہ شب یوں لگا کہ اندر سے کٹ رہا ہو
جھک کے چلتا ہوں کہ قد اس کے برابر نہ لگے
ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملے
بس اک اسی پہ تو پوری طرح عیاں ہوں میں
Thursday, 25 January 2018
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
اسے اب کے وفاؤں سے گزر جانے کی جلدی تھی
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
Wednesday, 24 January 2018
پرانی اور ممنوعہ کتابوں کے ذخیرے میں
بے وصل موسموں میں
Monday, 22 January 2018
دل کے سارے غم و الم نکلے
سچ کٹھن امتحان لگتا ہے
دھوئیں سے آسمان بنتے ہیں
Sunday, 21 January 2018
یہ طے ہوا ہے کہ قاتل کو بھی دعا دیجے
سہمے سہمے چلتے پھرتے لاشے جیسے لوگ
سروں کی فصل کاٹی جا رہی ہے
Saturday, 20 January 2018
ہنس رہی ہوں خواب سارے میں ادھورے چھوڑ کر
جب تلک خوف ہوا رہتا ہے
میرے بالوں میں چاندی کا کوئی تار آ جائے
عذاب ہجر نہ میں موسم ملال میں ہوں
ضبط کی ڈور سے بندھی ہیں فقط
بے دام ہم بکے سر بازار عشق میں
اس دورِ صد آشوب کی سرکار پہ لعنت
لبوں پہ کیا وہ مرے دل میں شہد گھولتا ہے
دیار عشق سے یوں تیرگی نکل جائے
یہاں معنی کا بے صورت صلہ نئیں
کیا ہوئے آشفتہ کاراں کیا ہوئے
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
میں تو سودا لئے پھرا سر میں
مسکرا کر خطاب کرتے ہو
وہ روشنی وہ رنگ وہ حدت وہ آب لا
بہت سوچنے میں بھی نقصان ہے
روشنی مے کے آبگینوں کی
دل کو فرصت ہو ذرا صدموں سے
خواب سارے سو گئے ہیں
کوئی دوجا تمہارے بعد نہیں
پیسہ بن جائے جب زباں صاحب
Friday, 19 January 2018
بے اثر ہو گئے سب حرف و نوا تیرے بعد
ابھی کچھ دن لگیں گے
مالک میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا
سوچتے ہیں کیا لکھیں
نجومی اکھیاں
تیرے رنگوں میں ڈھلتی تھی
تیرے رنگوں میں ڈھلتی تھی
بارش آگ پکڑ سکتی ہے
زم زم کی تاثیر ملی تھی
Thursday, 18 January 2018
تری آنکھ کو آزمانا پڑا
دل جلا کر بھی دلربا نکلے
پلکوں سے چن
اس کا بدن
کوئی زیر و زبر نہیں بچتا
یہاں تو یہ بھی ممکن ہے
اک تصویر ہے
آنکھوں کے پار چاند
آنکھ وحشت میں سموتی ہوں بہت بولتی ہوں
وصل ترمیم شدہ
میرے محرما ہے دعا میری
Wednesday, 17 January 2018
وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
Tuesday, 16 January 2018
مجھے تو شور قیامت دلوں میں ملتا ہے
مجھے تو شورِ قیامت دلوں میں مِلتا ہے
سکونِ قلب کہاں جنگلوں میں ملتا ہے
وہ مجھ سے دور اگر ہے تو کیا ہوا آخر
وہ میرے دھیان، مِری دھڑکنوں میں ملتا ہے
خوشی کے دن بھی گزارے مگر نہ ہاتھ آیا
وہ اک سرور جو مجھ کو دکھوں میں ملتا ہے
پر ہول جنگلوں کی صدا میرے ساتھ ہے
پُر ہول جنگلوں کی صدا میرے ساتھ ہے
میں جس طرف بھی جاؤں ہوا میرے ساتھ ہے
دنیا میں آج مجھ کو بلاؤں کا ڈر نہیں
ہر لمحہ میری ماں کی دعا میرے ساتھ ہے
دشوار راستوں میں حفاظت کرے گا وہ
میں مطمئن ہوں میرا خدا میرے ساتھ ہے
خود اپنی سوچ کے پنچھی نہ اپنے بس میں رہے
خود اپنی سوچ کے پنچھی نہ اپنے بس میں رہے
کھلی فضا کی تمنا تھی، اور قفس میں رہے
بچھڑ کے مجھ سے عذاب ان پہ بھی بہت گزرے
وہ مطمئن نہ کسی پَل کسی برس میں رہے
میں ایک عمر سے ان کو تلاش کرتا ہوں
کچھ ایسے لمحے تھے جو اپنی دسترس میں رہے
میں رتجگوں کے مکمل عذاب دیکھوں گا
میں رتجگوں کے مکمل عذاب دیکھوں گا
کسی نے جو نہیں دیکھے وہ خواب دیکھوں گا
وہ وقت آئے گا میری حیات میں جب میں
محبتوں کے چمن میں گلاب دیکھوں گا
گھرا ہوا ہوں اندھیروں میں غم نہیں مجھ کو
شبِ سیاہ کے بعد آفتاب دیکھوں گا
Sunday, 14 January 2018
ہمجولیوں کے ساتھ جوانی کی رات تھی
گرتے ہیں لوگ گرمیِ بازار دیکھ کر
خبر کوئی میری اگر پائیے گا
یہ جنگل ایک گہوارہ ہے خونی وارداتوں کا
مشرق کے ائرپورٹ پر مغرب کا دھتورا
Thursday, 11 January 2018
شام تنہائی قیامت سے کڑی ہے اور میں
نظر انداز ہو کر بھی اسی محفل کا حصہ ہوں
Wednesday, 10 January 2018
اے جاں یہ خموشی کیسی
کوئی آئے باغ میں اس طرح
زندگی شام کا سورج خود اپنے ہی لہو کی دھار
راستے کی تھکن
وہاں جس جگہ پر صدا سو گئی ہے
Monday, 8 January 2018
تم پہ بے اختیار مرتے ہیں
کیا کسی فرضی جہاں کی بات ہے
ضرورت بھی کتنا بڑا گھاؤ ہے
غم زمانہ کو غرق شراب کر دوں گا
Friday, 5 January 2018
جیسے نکلا اپنا جنازہ ایسے جنازے کم نکلے
ہے رنگ ایجاد بھی دل میں اور زخم ایجاد بھی ہے
زرد اداسی کی وحشت ہے اور فضائے شام خزاں
دل کی دلی بھی ہار بیٹھے ہیں
دل کی دلی بھی ہار بیٹھے ہیں
ہم سے مت کیجیو وجود کی بات
ہم عدم کو گزار بیٹھے ہیں
ہے وہ بد محفلی کہ مت پوچھ
یار آئے ہیں، یار بیٹھے ہیں