Wednesday, 20 April 2022

جس کو مزا لگا ہے ترے لب کی بات کا

جس کو مزا لگا ہے تِرے لب کی بات کا

ہرگز نہیں ہے ذوق اسے پھر نبات کا

دیکھے سے ان لبوں کے جسے عمرِ خضر ہے

پیاسا نہیں ہے چشمۂ آبِ حیات کا

اے شوخ! بزمِ ہجر میں روشن ہے شمعِ آہ

قصہ نہ پوچھ مجھ سے جدائی کی رات کا

یا رب! طلب ہے داغِ محبت کی مہر کی

مدت سے کام بند ہے دل کی برات کا

جو ہے شہیدِ یار، وہ ہے زندۂ مدام

ہر زخم روح بخش ہے ظالم کی ہات کا

آبِ رواں ہے حاصلِ عمرِ شتاب رو

لوحِ فنا میں نقش نہیں ہے ثبات کا

اے بُت پرست! دیدۂ بینا سے دیکھ تو

اِک ذات میں ظہور بہت سی صفات کا

میرے بغل میں خواہشِ دنیا کا بت نہیں

کچلا ہے میں نے لات سے سر اس منات کا

رخسارِ یار حلقۂ کاکُل میں ہے عیاں

یا چاند ہے سراج اماوس کی رات کا


سراج اورنگ آبادی

No comments:

Post a Comment