دیکھتی رہ گئی محرابِ حرم
ہائے انسان کی انگڑائی کا خم
جب بھی اوہام مقابل آئے
مثلِ شمشیر چلی نوکِ قلم
پرِ پرواز پہ یہ راز کھلا
غم کی دیوار گری تھی جن پر
ہم وہ لوگ ہیں اے قصرِ ارم
چاندنی غارۂ پائے جولاں
کہکشاں جادۂ ابنِ آدم
ایک تارہ بھی نہ پامال ہوا
ایسے گزرے رہِ افلاک سے ہم
شکیب جلالی
No comments:
Post a Comment