Thursday, 3 September 2020

قربتیں ہیں کس درجہ اور کس قدر تنہا

قربتیں ہیں کس درجہ اور کس قدر تنہا
پاس پاس رہ کر بھی دل و نظر تنہا
آرزو بھی مسرت بھی، درد بھی حسرت بھی
سینکڑوں ہیں ہنگامے، زندگی مگر تنہا
ایک شعلہ سا لپکا، ایک برق سی چمکی
ختم ہو گئے جلوے، رہ گئی نظر تنہا
جلوتوں میں اک محشر، خلوتوں میں اک عالم
کب کسی سے ملتا ہے حسنِ بے خبر تنہا
ایک بد گمانی کا احترام کیا کہیۓ
عشق ہے اِدھر چپ چپ حسن ہے اُدھر تنہا 
ایک پَل جدا ہو کر ان سے یہ ہوا محسوس
زندگی گزاری ہے جیسے عمر بھر تنہا
آئیں گے کبھی تو وہ  اس طرف بھی اے اقبال
جل رہی ہے مدت سے شمع رہگزر تنہا

اقبال صفی پوری

No comments:

Post a Comment