Friday, 4 September 2020

زمانہ نوچ نہ لے بے شمار آنکھیں کھول

زمانہ نوچ نہ لے، بے شمار آنکھیں کھول
تُو صرف دو نہیں اپنی ہزار آنکھیں کھول
عجیب شخص ہے، میں سانس بھی نہیں لیتا
"وہ چیخ چیخ کے کہتا ہے "یار آنکھیں کھول
یہ میرے رونے کو بدعت کا نام دے رہا ہے
تُو میرے عہد کی، پروردگار! آنکھیں کھول
ہماری آنکھ نہ لگ جائے اس خرابے میں
سو، اے جنونِ رہِ ریگزار! آنکھیں کھول
شرابِ عشق سے آرام کون پاتا ہے؟
چڑھا ہوا ہے اگر کچھ خمار، آنکھیں کھول
یہاں ازل سے اندھیرا ہی مقتدر رہا ہے
سو روشنی کا نہ کر انتظار، آنکھیں کھول
جو تیرے نام پہ ہنستا تھا کل تلک ساحر
وہ گریہ زار ہے زار و قطار، آنکھیں کھول

سبطین ساحر

No comments:

Post a Comment