زمانہ نوچ نہ لے، بے شمار آنکھیں کھول
تُو صرف دو نہیں اپنی ہزار آنکھیں کھول
عجیب شخص ہے، میں سانس بھی نہیں لیتا
"وہ چیخ چیخ کے کہتا ہے "یار آنکھیں کھول
یہ میرے رونے کو بدعت کا نام دے رہا ہے
ہماری آنکھ نہ لگ جائے اس خرابے میں
سو، اے جنونِ رہِ ریگزار! آنکھیں کھول
شرابِ عشق سے آرام کون پاتا ہے؟
چڑھا ہوا ہے اگر کچھ خمار، آنکھیں کھول
یہاں ازل سے اندھیرا ہی مقتدر رہا ہے
سو روشنی کا نہ کر انتظار، آنکھیں کھول
جو تیرے نام پہ ہنستا تھا کل تلک ساحر
وہ گریہ زار ہے زار و قطار، آنکھیں کھول
سبطین ساحر
No comments:
Post a Comment