Thursday, 3 September 2020

ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں

ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں
میلاد ہو کہ مجلسِ غم،۔ مبتلا تِرے
آنگن میں دل کے فرش بچھائے ہوئے تو ہیں
حزبِ حرم نے شوقِ جنوں کو بڑھا دیا
سینے سے ہم بتوں کو لگائے ہوئے تو ہیں
دنیا کہاں تھی پاسِ وراثت کے ضِمن میں
اک دِین تھا سو اس پہ لٹائے ہوئے تو ہیں
کب چوبِ دار پر ہوں سر افراز دیکھیے
اس شوخ کی نگاہ میں آئے ہوئے تو ہیں

حسن عابدی

No comments:

Post a Comment