Friday, 4 September 2020

یہ پوچھتی ہو طویل شب کی سحر تو ہے نا

یہ پوچھتی ہو طویل شب کی سحر تو ہے نا
تُو ساتھ چلنے کا ٹھان بیٹھی، نڈر تو ہے نا
سبھی پرندے چلے گئے ہیں تو کیا ہوا ہے
ہمارے آنگن میں ایک سُوکھا شجر تو ہے نا
خدا کی دنیا کو میری وقعت بتانے والے
ذرا بتاؤ، تمہاری خود پہ نظر تو ہے نا
ضیا سے اپنی اگرچہ محروم ہوں تو کیا ہے
میں جل رہا ہوں، بتا اجالا ادھر تو ہے نا
یہ بوڑھے برگد حریف ہیں تو حریف ٹھہریں
نہیں ہے چھاؤں جو پاس اپنے ثمر تو ہے نا
اے شاہزادی! تمہیں تمہارا محل مبارک
اگرچہ ٹوٹا ہوا ہے، اپنا پہ گھر تو ہے نا
مجھے یہ تسلیم ہے کہ شاعر نہیں ہوں یارو
مگر یہ مانو کہ، بات میں کچھ اثر تو ہے نا
تمہاری خاطر میں اپنا سب کچھ لٹا دوں پگلی
نہیں بچا کچھ اگر تو ساحر یہ سر تو ہے نا

سبطین ساحر

No comments:

Post a Comment