Saturday, 22 January 2022

لگی ہیں مدتیں لیکن وہ آشکار ہوا

 لگی ہیں مدتیں لیکن وہ آشکار ہوا

خودی میں اس کے تصور کا اعتبار ہوا

غلط جگہ پہ تلاشِ قرار تھی مجھ کو

سو جب قرار دکھا دل یہ بے قرار ہوا

یہاں پہ میں ہوں کہ سانسیں رہینِ منت ہیں

وہاں کسی کا جہانوں پہ اختیار ہوا

جہاں پہ ڈگریاں نا کوئی تجربہ درکار

میں نوکری کا وہاں پر امیدوار ہوا

اُسی نے آ کے سنبھالا ہے میرا دل ورنہ

بہت سے عشق کئے، پیار بار بار ہوا

جو ایک غار سے نکلی وہ روشنی یارو

مِری نگاہ میں اتری، میں اشکبار ہوا

اویس کانپ اٹھا دیکھ کر حقیقت کو

غرور خاک ہوا پھر یہ خاکسار ہوا


اویس رشید

No comments:

Post a Comment