عشق بھی اجسام کا بیوپار ہی تو ہے
وعدۂ وفا کیا ہے؟ گفتار ہی تو ہے
اس صاحبِ اختیار کی تقلید کیا کریں
اک مُردہ کہانی کا کردار ہی تو ہے
ہوتی ہے شب و روز جذبوں کی تجارت
ہر شخص یہاں حسن کا خریدار ہی تو ہے
ہے زیست کا سفر اک عذابِ مسلسل
یہ دل اس سفر سے بیزار ہی تو ہے
کھو گیا وہ شخص جو دسترس میں تھا
اس کا دوبارہ ملنا دشوار ہی تو ہے
وقت کے منصف بھی نکلے شریکِ جرم
خدا کی خدائی سے یہ انکار ہی تو ہے
فاروق طاہر
No comments:
Post a Comment