نیک دل لڑکیو
آرزو کی نمائش سے گزرو تو چاروں طرف دیکھنا
اور پھر جب تمہارے لہو میں کسی کا لہو سرسرائے
ستاروں میں آنکھیں چھپا کر دعا مانگنا
قیدیوں شاعروں اور محکوم آبادیوں کے لیے
اور بیمار بچوں کی ماں کے لیے
اور پھر نرم ہونٹوں کی حدت سے
جب چھاتیوں میں ہوا سنسناتی سنو
نیک دل لڑکیو یاد کرنا انہیں
جن کی قیمت بھی لکھے ہوئے دائرے
ایک سے رات دن اور تنہائیاں ہیں
ہمارے لیے چاند نکلے نہ نکلے
کہ ٹہنیوں سے بچھڑ کے سنبھلنے نہ پائے
ہواؤں کے کندھوں پہ روتے ہوئے دور ہوتے گئے
اور جب لوٹنے کی حدوں سے بھی آگے نکل آئے
پیچھے سے آواز آئی پلٹ آؤ
ہم نے تمہارے لیے آج آنسو بہائے ہیں
ہم رات کے میہماں ہیں مگر نیک دل لڑکیو
آرزو کی نمائش میں چاروں طرف دیکھنا
اور آنکھوں کی تحریر پڑھنا
ہماری طرف جب تمہارے سفر کا مسافر
ہوا کے ستم سے گزرنے لگے
اس سے کہنا؛ ٹھہر جاؤ
میرے لہو میں تمہارے لیے آرزو ہے
تو اے نیک دل لڑکیو الوداع
یاد رکھنا ہماری حقیقت سے گزرو تو
آنسو بہا کر دعا مانگنا
قیدیوں شاعروں اور محکوم آبادیوں کے لیے
اور بیمار بچوں کی ماں کے لیے
اور اس کے لیے جو تمہارے بدن کا مسافر ہے لیکن
ہمارے سفر کی شہادت ہے
عباس اطہر
No comments:
Post a Comment