ہاتھ بھی چھُوٹا کسی کا، مِل گیا آرام بھی
کتنی آسانی سے ہو جاتے ہیں مشکل کام بھی
ٹوٹ جانے کو بنی تھی اک قیامت کی شبیہہ
اور کیا ہوتا ہمارے خواب کا انجام بھی
موت کی خوشبو نے پاگل کی طرح لِپٹا لیا
ہم ادھورا چھوڑ آئے اک ضروری کام بھی
سیرِ دنیا کرے دل باغ کا در تو کھولے
یہ پرندہ کبھی پرواز کو پر تو کھولے
میں تو تا عمر تِرے شہر میں رکنا چاہوں
کوئی آ کر مِرا اسبابِ سفر تو کھولے
خود بھی جنگل کو مجھے کاٹنا آ جائے گا
پر وہ شہزادہ مِری نیند کا در تو کھولے