Tuesday, 20 December 2016

آج دریچے میں وہ آنا بھول گیا

آج دریچے میں وہ آنا بھول گیا
میں بھی اپنا دِیا جلانا بھول گیا
آج مجھے بھی اس کی یاد نہیں آئی
وہ بھی میرے خواب میں آنا بھول گیا
بیلیں دیواروں سے لپٹنا بھول گئیں
موسم بھی اپنا پھول کھلانا بھول گیا
چلتے چلتے میں اس کو گھر لے آیا
وہ بھی مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑانا بھول گیا
خط لکھا ہے، پر خط کے کونے پر
وہ ہونٹوں سے پھول بنانا بھول گیا
روٹھ کے اک بستر پہ دونوں بیٹھے رہے
میں اس کو، وہ مجھ کو منانا بھول گیا
دھوپ چڑھے تک دونوں گھر میں سوئے رہے
میں اس کو، وہ مجھے جگانا بھول گیا

نذیر قیصر

No comments:

Post a Comment