Tuesday, 20 December 2016

کیسا تارا ٹوٹا مجھ میں

کیسا تارا ٹوٹا مجھ میں 
جھانک رہی ہے دنیا مجھ میں 
کوئی پرانا شہر ہے جس کا 
کھلتا ہے دروازہ مجھ میں
دیا جلا کے چھوڑ گیا ہے 
کوئی اپنا سایا مجھ میں 
بند ہوئی جاتی ہیں آنکھیں 
کیسا منظر جاگا مجھ میں
آوازیں دیتا ہے مجھ کو 
کوئی میر کے جیسا مجھ میں 
کوئی مجھ کو ڈھونڈھنے والا 
بھول گیا ہے رستہ مجھ میں
خالی تھی گلدان میں ٹہنی 
کھلا ہوا تھا شعلہ مجھ میں 
برس رہی تھی بارش باہر اور 
کوئی بھیگ رہا تھا مجھ میں
اڑتا رہتا ہے راتوں کو 
قیصرؔ کوئی پرندہ مجھ میں

نذیر قیصر

No comments:

Post a Comment