سینے کی آگ آتشِ محشر ہو جس طرح
یوں موجزن ہے غم کہ سمندر ہو جس طرح
بادل کا شور، ہانپتے پیڑوں کی بے بسی
یوں دیکھتا ہوں میرے ہی اندر ہو جس طرح
اڑتے ہوئے غبار میں آنکھوں کا دشت بھی
بستی کے موڑ پہ برسوں سے اک کھنڈر
یوں نوحہ گر ہے، میرا مقدر ہو جس طرح
ویرانیوں کا کس سے گِلا کیجیۓ، کہ دل
اتنا اداس ہے، کہ لٹا گھر ہو جس طرح
زلفیؔ کو کھینچو دار پہ، دیوار میں چنو
سچ بولتا ہے یوں، کہ پیمبر ہو جس طرح
سیف زلفی
No comments:
Post a Comment