ہمہ وقت جو مِرے ساتھ ہیں یہ ابھرتے ڈوبتے سائے سے
کسی روشنی کے سراب ہیں کہ ملے ہر اپنے پرائے سے
خم جادہ سے میں پیادہ پا،۔ کبھی دیکھ لیتا ہوں خواب سا
کہیں دور جیسے دھواں اٹھا کسی بھولی بسری سرائے سے
اٹھی موجِ درد تو یک بہ یک مِرے آس پاس بکھر گئے
ملا مجھ کو راہ میں اک نگر جہاں کوئی شخص نہ تھا مگر
وہ زمیں شگفتہ شگفتہ سی وہ مکاں نہائے نہائے سے
مِرے کار زارِ حیات میں رہے عمر بھر یہ مقابلے
کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے کبھی دھوپ دب گئی سائے سے
رئیس فروغ
No comments:
Post a Comment