Tuesday, 20 December 2016

ہمہ وقت جو مرے ساتھ ہیں یہ ابھرتے ڈوبتے سائے سے

ہمہ وقت جو مِرے ساتھ ہیں یہ ابھرتے ڈوبتے سائے سے
کسی روشنی کے سراب ہیں کہ ملے ہر اپنے پرائے سے
خم جادہ سے میں پیادہ پا،۔ کبھی دیکھ لیتا ہوں خواب سا
کہیں دور جیسے دھواں اٹھا کسی بھولی بسری سرائے سے
اٹھی موجِ درد تو یک بہ یک مِرے آس پاس بکھر گئے
مہ نیم شب کے اِدھر اُدھر جو لرز رہے تھے کنائے سے
ملا مجھ کو راہ میں اک نگر جہاں کوئی شخص نہ تھا مگر
وہ زمیں شگفتہ شگفتہ سی وہ مکاں نہائے نہائے سے
مِرے کار زارِ حیات میں رہے عمر بھر یہ مقابلے
کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے کبھی دھوپ دب گئی سائے سے

رئیس فروغ

No comments:

Post a Comment