اک پل کی رفاقت بھی احسان سمجھتا ہوں
تم کچھ نہ کہو پھر بھی اے جان سمجھتا ہوں
قسمت کا ستم دیکھو میں مل بھی نہیں سکتا
حالانکہ تجھے اپنی پہچان سمجھتا ہوں
آنکھوں کی زباں ہر جا بس ایک ہے دنیا میں
ہر روز خیالوں میں جو چاند ستاتا ہے
دکھ درد کا میں اس کو سامان سمجھتا ہوں
قسمت کی لکیروں کا قائل تو نہیں، لیکن
قاتل جو بنیں گے وہ ارمان سمجھتا ہوں
اب سوچ لیا میں نے جو ہو گا وہ دیکھوں گا
سو تیرے لیے یہ دل میں دان سمجھتا ہوں
اب تم بھی تلاش اپنی موقوف ہی کر ڈالو
میں آج سے ہر چہرہ انجان سمجھتا ہوں
اس ذات کے زنداں میں ہر شام جو ہوتی ہے
دستک وہ صفؔی دل کی ہر آن سمجھتا ہوں
عتیق الرحمٰن صفی
No comments:
Post a Comment