Tuesday, 6 December 2016

وارفتگی سے مجھ کو کبھی دیکھتے تھے وہ

 وارفتگی سے مجھ کو کبھی دیکھتے تھے وہ

نظروں میں راز دل کے سدا ڈھونڈتے تھے وہ

جب بڑھ گئی تھی تشنہ لبی دل کے گھاٹ پر

پتھر نظر کے شام و سحر پھینکتے تھے وہ

پُر درد شب ہماری کبھی اس طرح کٹی

میں بھی نہ سو سکا تو اُدھر جاگتے تھے وہ

لگتی تھی راہِ زیست میں ٹھوکر کوئی اگر

تو بڑھ کے دونوں ہاتھ مِرے تھامتے تھے وہ

‘‘بے تاب ہو کے کہتا تھا جب ان کو’’میری جاں

ہنس ہنس کے جھوٹ موٹ مجھے ڈانٹتے تھے وہ

اک عرضِ آرزو پہ مِری جھینپ کے صفیؔ

ہاتھوں سے اپنا چہرہ سدا ڈھانپتے تھے وہ


عتیق الرحمٰن صفی

No comments:

Post a Comment