وارفتگی سے مجھ کو کبھی دیکھتے تھے وہ
نظروں میں راز دل کے سدا ڈھونڈتے تھے وہ
جب بڑھ گئی تھی تشنہ لبی دل کے گھاٹ پر
پتھر نظر کے شام و سحر پھینکتے تھے وہ
پُر درد شب ہماری کبھی اس طرح کٹی
میں بھی نہ سو سکا تو اُدھر جاگتے تھے وہ
لگتی تھی راہِ زیست میں ٹھوکر کوئی اگر
تو بڑھ کے دونوں ہاتھ مِرے تھامتے تھے وہ
‘‘بے تاب ہو کے کہتا تھا جب ان کو’’میری جاں
ہنس ہنس کے جھوٹ موٹ مجھے ڈانٹتے تھے وہ
اک عرضِ آرزو پہ مِری جھینپ کے صفیؔ
ہاتھوں سے اپنا چہرہ سدا ڈھانپتے تھے وہ
عتیق الرحمٰن صفی
No comments:
Post a Comment