Tuesday, 6 December 2016

لو بزم سے وہ سر و خراماں نکل گیا

لو بزم سے وہ سر و خراماں نکل گیا
اب اٹھ کے بیٹھ جاؤ کہ طوفاں نکل گیا
بھولے سے اس نے پاس بلایا تھا ایک بار
میں سرخوشی میں سوئے بیاباں نکل گیا
وہ لمحۂ رواں کی طرح تھا ، نہ رُک سکا
ہاتھوں کو چھُو کے یار کا داماں نکل گیا
کیا پوچھتے ہو دشت نوردی سے کیا مِلا
ملنا تھا کیا،۔ تلاش کا ارماں نکل گیا
رخصت ہوئی اسی کے تعاقب میں زندگی
سینے سے آرزو کا جو پیکاں نکل گیا
ہاں وہ مِلا مجھے یہ سنو کس طرح مِلا
جھونکا ہوا کا جیسے غزل خواں نکل گیا
کیا خوف تھا فریبِ نظر کا کہ عرشؔ میں
منزل کو دیکھتا ہُوا حیراں نکل گیا

عرش صدیقی

No comments:

Post a Comment