Tuesday, 6 December 2016

حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستور وفا ہے

حیراں ہوں کہ یہ کون سا دستورِ وفا ہے
تُو مثلِ رگِ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے
تُو اہل نظر ہے تو نہیں، تجھ کو خبر کیوں
پہلو میں ترے کوئی زمانےسے کھڑا ہے
ہم رکھتے ہیں دعویٰ کہ ہے قابو ہمیں دل پر
تُو سامنے آ جائے تو یہ بات جدا ہے
کیوں جاگے ہوئے شہر میں تنہا ہے ہر اک شخص
یہ روشنی کیسی ہے کہ سایہ بھی جدا ہے
محسوس کیا ہے کبھی تُو نے بھی وہ خنجر
غم بن کے جو ہر شخص کےسینے میں گڑا ہے
ٹھہرائے اسے عرؔش کوئی کیسے جفا کش 
جو مجھ سے الگ رہ کے بھی ہمراہ چلا ہے

عرش صدیقی

No comments:

Post a Comment