Tuesday, 6 December 2016

اسے کہنا دسمبر جا رہا ہے

اسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس ایک اور 
ماضی کی گپھا میں ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون جسموں میں
سو جائے گا وہ نہ جاگے گا

اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کی کہرے کی
دیواروں پر لرزاں ہے
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں پر سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو برف کیسے پگھلے گی
اسے کہنا لوٹ آئے

عرش صدیقی

No comments:

Post a Comment