ضرورت ہو کوئی ہر پل مجھے تم یاد آتے ہو
مِری سب مشکلوں کے حل مجھے تم یاد آتے ہو
شبِ تیرہ کے دامن میں بسی ہے زندگی میری
تڑپتا ہے دلِ بے کل،۔۔۔ مجھے تم یاد آتے ہو
لکھے تھے جو کبھی تم نے محبت کے وہ خط سارے
مِری آنکھوں کے ہیں بادل، مجھے تم یاد آتے ہو
ستاروں سے بھرا یہ تو فلک یوں مجھ کو لگتا ہے
کہ ہو جیسے تِرا آنچل مجھے تم یاد آتے ہو
جدائی کی گھنی شامیں ہمیشہ مجھ کو لگتی ہیں
تمہاری آنکھ کا کاجل، مجھے تم یاد آتے ہو
مِرا دل بن چکا ہے اب فراقِ جاں گسل میں تو
تِری یادوں کا اِک جنگل مجھے تم یاد آتے ہو
کبھی اٹکھیلیاں کرتے سمندر کے کنارے پر
میں دیکھوں جب کوئی چنچل مجھے تم یاد آتے ہو
اگر ممکن ہو بس اِک بار آ جاؤ مجھے ملنے
کہ اب دل ہے بہت بوجھل مجھے تم یاد آتے ہو
اکیلے پن کی جاں لیوا سی حالت میں صفؔی اب کے
ہُوا ہے حوصلہ بھی شل،۔ مجھے تم یاد آتے ہو
عتیق الرحمٰن صفی
No comments:
Post a Comment