آئینہ کہتا ہے، کہنا تو نہیں چاہیے تھا
تُو ابھی زندہ ہے، رہنا تو نہیں چاہیے تھا
اس کی بنیاد میں آنسو تو نہیں رکھے تھے
گھر ستونوں پہ تھا، بہنا تو نہیں چاہیے تھا
سوچتا ہوں کہ مِرے گھر میں اندھیرا کیوں ہے
پھول مارا تھا مِرے دوست نے پتھر تو نہیں
مجھ کو مر جانا تھا، سہنا تو نہیں چاہیے تھا
میں نے اک پیڑ سے ملبوس کے پتے مانگے
سارا جنگل ہی برہنہ تو نہیں چاہیے تھا
فیصل عجمی
No comments:
Post a Comment