میں گھر میں ہوں، مگر یہ گھر قفس میں آ گیا ہے
نگر سارا کسی دشمن کے بس میں آ گیا ہے
میں برگد ہوں، مگر یہ دھوپ مجھ کو چاٹ لے گی
مِرا سایہ تو اِس کی دسترس میں آ گیا ہے
میں تیرے شہر کو اب چھوڑ دینا چاہتا ہوں
وہی ہجرت میں ہجرت ہو رہی ہے پہلے جیسی
وہی پچھلا برس، اگلے برس میں آ گیا ہے
کوئی رویا تھا شاخِ طاق کے سائے میں فیصل
لہو کا رنگ، انگوروں کے رس میں آ گیا ہے
فیصل عجمی
No comments:
Post a Comment