Tuesday, 6 December 2016

اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
حمدِ باری تعالیٰ اللہ ہُو اللہ ہُو اللہ ہُو اللہ ہُو

کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا، کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ آج تک تیرا نشاں پہنچا

ہر ذرے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے
حیران ہے مگر عقل کے کیسے ہے تو کیا ہے
تجھے دیر و حرم میں نے ڈھونڈا تو نہیں ملتا
مگر تشریف فرما تجھے اپنے دل میں دیکھا ہے

ڈھونڈے نہیں ملے ہو نہ ڈھونڈنے سے کہیں تم
اور پھر یہ تماشا ہے جہاں ہم ہیں، وہاں تم
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا

حرم و دیر میں ہے جلوہِ پرفن تیرا
دو گھروں کا ہے چراغ کرخِ روشن تیرا 
جو الفت میں تمہاری کھو گیا ہے
اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے

نہ بُت خانے میں نہ کعبے میں ملا ہے
مگر ٹوٹے ہوئے دل میں ملا ہے
آدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے
کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے

نہیں ہے تو تو پھر انکار کیسا 
نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ تُو نہیں تو اور کیا ہے

نہیں آیا خیالوں میں اگر تُو
تو میں کیسے سمجھا تُو خدا ہے
حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو کیا ہو
ہاتھ آؤ تو بت ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو

عقل میں جو گھِر گیا وہ لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا 
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں 

پتہ یوں تو بتا دیتے ہو سب کو لامکاں اپنا
تعجب ہے مگر رہتے ہو تم ٹوٹے ہوئے دل میں 
جب کہ تجھ بِن کوئی نہیں موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

چھُپتے نہیں ہو سامنے آتے نہیں ہو تم
جلوہ دکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تم  
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم 

حیران ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح
حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم 
دل پہ حیرت نہیں عجب رنگ جما رکھا ہے
ایک الجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے

سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکر کیا ہے
کھیل کیا تونے ازل سے یہ رچا رکھا ہے 
روح کو جسم کے پنجرے کا بنا کر قیدی
اس پہ پھر موت کا پہری بھی بٹھا رکھا ہے 

دے کے تدبیر کے پنچھی کو اڑانے تو نے
دامِ تدبیر میں ہر سمت بچھا رکھا ہے
کر کے آرائشِ کونین کی برسوں تو نے
ختم کرنے کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے 

لامکانی کا ہے بحر حال ہے دعویٰ بھی تمہیں
نحل و اکرب کا بھی پیغام سنا رکھا ہے
یہ برائی وہ بھلائی یہ جہنم وہ بہشت
اس الٹ پھیر میں تو فرماؤ کیا رکھا ہے

جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو
عدل و انصاف کا بھی میعار کیا رکھا ہے
دے کے انسان کو دنیا میں خلافت اپنی
اک تماشہ سا زمانے میں بنا رکھا ہے 
اپنی پہچان کی ہے خاطر بنایا سب کو
سب کی نظروں سے مگر خود کو چھپا رکھا ہے

نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو
جانے کس جرمِ تمۤنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو 

زندگی کتنے ہی مُردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں میں سجا دیتے ہو 
خواہشِ دید جو کر بیٹھے سرِ طور کوئی
طور ہی برقِ تجلی سے جلا دیتے ہو

نارِ نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو 
چاہِ کنعاں میں کبھی پھینکو ماہِ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو

دے کے یوسفؑ کو مصر کے بازاروں میں
آخر کار شہِ مصر بنا دیتے ہو
جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو

خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو 
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشوں کی لگن جس کو لگا دیتے ہو 

خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
جو کہتا ہوں مانا لگتا ہے تمیں بُرا سا
پھر بھی ہے مجھے تم سے بحر حال گلِا سا

چپ چاپ تم دیکھتے رہے عرش بریں پہ
تپتے ہوئے کربل میں محمدص کا نواسہ 
کس طرح پلاتا تھا لہو اپنا وفا کو
خود تین دنوں سے تھا اگرچہ وہ پیاسہ

دشمن تو بحر حال تھے دشمن مگر افسوس
تم نے بھی نہیں کیا پانی فراہم ذرا سا 
ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسا

کل تاج سجا دیکھا تھا جس شخص کے سر پر
ہے اس شخص کے ہاتھوں میں ہی کاسا
یہ کیا ہے اگر پوچھوں تو کہتے ہو جواباً 
اس راز سے ہو سکتا نہیں کوئی شناسا

ہر اک جاں پہ ہو مگر پتہ نہیں معلوم
تمہارا نام سنا ہے نشاں نہیں معلوم 
دل سے ارمان جو نکل جائے تو جگنو ہو جائے
اور آنکھوں میں سمٹ آئے تو آنسو ہو جائے

جا پہ یا ہو کا جو بے ہو کرے ہو میں کھو کر
اس کو سلطانیاں مل جائیں وہ باہو ہو جائے
بالغی کا نہ کسی کا ہو چھری کے نیچے
حلق اصغر میں کبھی تیر ترازو ہو جائے

راہِ تحقیق میں ہر غم میں الجھن دیکھوں 
وہی حالات و خیالات میں اَن بَن دیکھوں
بن کے رہ جاتا ہوں تصویر پریشانی کی
غور سے جب دنیا کے درپن دیکھوں

ایک ہی خاک پہ فطرت کے تضادات اتنے
اتنے حصوں میں بنتا ایک ہی آنگن دیکھوں 
کہیں زحمت کی سلگتی ہوئی پت جھڑ کا سماں
کہیں رحمت کے برستے ہوئے ساون دیکھوں

کہیں پھنکارتے دریا کہیں خاموش پہاڑ
کہیں جنگل کہیں صحرا کہیں گلشن دیکھوں
خون رلاتا ہے ہے تقسیم کا یہ انداز مجھے
کوئی دھنوان یہاں پر کوئی نردھن دیکھوں

دن کے ہاتھوں میں فقط اک سلگتا سورج
رات کی مانگ ستاروں سے مزین دیکھوں 
کہیں مرجھائے ہوئے پھول ہیں سچائی کے
اور کہیں جھوٹ کے پاؤں پہ بھی جوبن دیکھوں

شمس کی کھال کہیں کھینچتی نظر آتی ہے
کہیں سرمد کی اترتی ہوئی گردن دیکھوں 
رات کیا شے سویرا کیا ہے
یہ اجالا یہ اندھیرا کیا ہے 

میں بھی نائب ہوں تمہارا آخر
کیوں یہ کہتے ہو کہ تیرا کیا ہے
مسجد مندر یہ مۓ خانے
کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے

سب تیرے ہیں جاناں کاشانے
کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے 
اک ہونے کا تیرے قائل ہے
انکار پہ کوئی مائل ہے 

اک خلق میں شامل کرتا ہے
اک سب سے اکیلا رہتا ہے
ہیں دونوں تیرے مستانے
کوئی یہ مانے کوئی وہ مانے

سب ہیں عاشق جب تمہارے نام کے
کیوں یہ جھگڑے ہیں رحیم و رام کے
دیر میں تو حرم میں تو 
عرش پہ تو زمیں پہ تو 

جس کی پہنچ جہاں تلک 
اس کے لئے وہیں پہ تو
مرکزِ جستجو عالمِ رنگ و بو
دم بادم جلوہ گر تو ہی تو چار سو

ہو کے ماحول میں کچھ نہیں اِللہُ
تم بہت دلرُبا، تم بہت خوبرو 
عرش کی عظمتیں فرش کی آبرو
تم ہو کونین کا حاصلِ آرزو 

آنکھ نے کر لیا آنسوؤں سے وضو
کر دو کر دو عطا دید کا اک سبو
آؤ پردے سے تم رو برو
چند لمحے ملن دو گھڑی گفتگو

نازؔ جپتا پھرے جا بجا کو بہ کو
وحدہُ وحدہُ لا شِریکَ لہُ
اللہ ہُو اللہ ہُو اللہ ہُو اللہ ہُو
اللہ ہُو اللہ ہُو اللہ ہُو اللہ ہُو

ناز خیالوی

No comments:

Post a Comment