Thursday, 3 September 2020

ہمارے خواب کا منظر بدلنے والا ہے

ہمارے خواب کا منظر بدلنے والا ہے
چراغ رہنے دو سورج نکلنے والا ہے
شبِ سیاہ کا خیمہ اکھڑنے والا ہے
سرائے جاں میں سویرا اترنے والا ہے
ہمارے اشک بھی اب رائیگاں نہ جائیں گے
یہ سیل تجھ کو بہا کر گزرنے والا ہے
گئے دنوں کا بھی تجھ سے حساب مانگیں گے
جو جا چکا تھا پلٹ کر جھپٹنے والا ہے
کئی دنوں سے تیری شکل بھی نہیں دیکھی
تُو در تو کھول، تِرا کوئی ملنے والا ہے
اب اس کے اپنے قدم تجھ سے تیز تر ہوں گے
جو گر چکا تھا زمیں پر، سنبھلنے والا ہے
جو ایک لفظ بھی سنتا نہ تھا خلاف تِرے
ذرا سی بات پہ اب تجھ سے لڑنے والا ہے
نمی کچھ آئی ہے اس کی بھی آنکھ میں فخری
زمینِ سنگ سے چشمہ ابلنے والا ہے

زاہد فخری

No comments:

Post a Comment