ہمارے خواب کا منظر بدلنے والا ہے
چراغ رہنے دو سورج نکلنے والا ہے
شبِ سیاہ کا خیمہ اکھڑنے والا ہے
سرائے جاں میں سویرا اترنے والا ہے
ہمارے اشک بھی اب رائیگاں نہ جائیں گے
گئے دنوں کا بھی تجھ سے حساب مانگیں گے
جو جا چکا تھا پلٹ کر جھپٹنے والا ہے
کئی دنوں سے تیری شکل بھی نہیں دیکھی
تُو در تو کھول، تِرا کوئی ملنے والا ہے
اب اس کے اپنے قدم تجھ سے تیز تر ہوں گے
جو گر چکا تھا زمیں پر، سنبھلنے والا ہے
جو ایک لفظ بھی سنتا نہ تھا خلاف تِرے
ذرا سی بات پہ اب تجھ سے لڑنے والا ہے
نمی کچھ آئی ہے اس کی بھی آنکھ میں فخری
زمینِ سنگ سے چشمہ ابلنے والا ہے
زاہد فخری
No comments:
Post a Comment