پتھر کس کو مارو گے جب ان کے سر بھی اپنے ہیں
سانجھی ہیں دیواریں سب کی، سارے گھر بھی اپنے ہیں
ایسی الجھی باتیں مت کر ، دیکھ یہ بستی اپنی ہے
خوشبو بن کر دستک دینا، بام و در بھی اپنے ہیں
جلتے پتھر پر بیٹھے ہو، گھر کی جانب لوٹ آؤ
تاریکی کے چھَٹ جانے پر سب کو یہ پچھتاوہ ہے
جن کی گھات میں ہم بیٹھے تھے، وہ لشکر بھی اپنے ہیں
اپنی ہیں وہ بانہیں جن کے وار سہے تھے سینے پر
جن پر ہم نے زخم لگائے وہ پیکر بھی اپنے ہیں
جن آنکھوں نے خواب بُنے ہیں وہ آنکھیں بھی اپنی ہیں
پتھر ہیں جو آنکھیں فخری، وہ پتھر بھی اپنے ہیں
زاہد فخری
No comments:
Post a Comment