محبت کے سفر میں کوئی بھی رستا نہیں دیتا
زمیں واقف نہیں بنتی، فلک سایا نہیں دیتا
خوشی اور دکھ کے موسم سب کے اپنے اپنے ہوتے ہیں
کسی کو اپنے حصے کا کوئی لمحہ نہیں دیتا
نہ جانے کون ہوتے ہیں جو بازو تھام لیتے ہیں
اداسی جس کے دل میں ہو اسی کی نیند اڑتی ہے
کسی کو اپنی آنکھوں سے کوئی سپنا نہیں دیتا
اٹھانا خود ہی پڑتا ہے تھکا ٹوٹا بدن فخری
کہ جب تک سانس چلتی ہے کوئی کاندھا نہیں دیتا
زاہد فخری
No comments:
Post a Comment