Thursday, 3 September 2020

بہت دن سے ان آنکھوں نے سمندر تھام رکھا ہے

نہیں آگے بڑھا سنگ مقرر تھام رکھا ہے
کہ میں نے آج تک اجلا کبوتر تھام رکھا ہے
بہت دن سے ان آنکھوں نے تمہیں دیکھا نہیں جاناں
بہت دن سے ان آنکھوں نے سمندر تھام رکھا ہے
تِری امید پر روکا ہوا ہے سال کو میں نے
تِری امید میں میں نے دسمبر تھام رکھا ہے
بچھا رکھا ہے اس نے آج تک در در کی ٹھوکر سے
یہ جو اوصاف میں نے ایک در تھام رکھا ہے

اوصاف شیخ

No comments:

Post a Comment