بھٹک رہے ہیں یہاں ماہ و سال بھولے ہوئے
جواب ڈھونڈ رہے ہیں سوال بھولے ہوئے
مجھے بھی یاد نہیں ہیں اب اس کے نقش و نگار
اسے بھی ہوں گے میرے خد و خال بھولے ہوئے
کسی کی کھوج میں سمتوں کا کوئی ہوش نہیں
کسی منڈیر پر اوصاف تھک کے بیٹھ گئے
ہم اپنا آشیاں، ہم اپنی چال بھولے ہوئے
اوصاف شیخ
No comments:
Post a Comment